Ticker

6/recent/ticker-posts

ایٹمی جنگ کے بڑھتے خطرات: جانیے کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟


 روس اور یوکرین کی جنگ میں شدت کے بعد دنیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس وقت ایٹمی جنگ کا خطرہ 60 سال کے دوران اپنی انتہائی سطح پر ہے۔

روسی صدر پوتن بھی دھمکی دے چکے ہیں کہ ماسکو اپنی ملکی خودمختاری کے دفاع کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرکے نظیر قائم کرچکا ہے۔

روس کی قومی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ نے بھی گزشتہ دنوں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت کا حوالہ دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ روسی ہائپرسونک میزائل یورپ میں کسی بھی ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔

امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کے مطابق اس وقت دنیا کے 9 ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جس میں امریکا، برطانیہ، روس، چین، فرانس، پاکستان، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

روس کے پاس کتنے ہتھیار ہیں؟

فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ کے مطابق روس کے پاس نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد نیٹو کے تمام ممالک سے زیادہ ہے، روس کے پاس 5977 جبکہ نیٹو ممالک کے پاس 5943 جوہری وارہیڈز موجود ہیں۔

روس کے پاس موجود 5997 جوہری وار ہیڈز میں سے 1500 ریٹائرڈ ہوسکتے ہیں جبکہ باقی ساڑھے چار ہزار راکٹ، بیلسٹک میزائل طویل فاصلے پر اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کی تعداد 1185 ہے، سب میرین سے لانچ ہونے والے بیلسٹک میزائل 800 اور ہوا سے گرانے والے جوہری بمباروں کی تعداد 580 ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت روس نے 1500 وار ہیڈز کو سمندروں میں سب میرینز یا دیگر جنگی سائٹس پر نصب کر رکھا ہے۔ چھوٹے اور کم نقصان پہنانے والے شارٹ رینج ایٹمی ہتھیار میدان جنگ اور سمندر میں استعمال کیلئے ہیں۔

دیگر ممالک کے پاس موجود جوہری وار ہیڈز:

امریکا: 5428

فرانس:290

برطانیہ: 225

چین 350

پاکستان 165

بھارت:160

اسرائیل: 90

شمالی کوریا: 20

این پی ٹی معاہدہ کیا ہے؟

چین، فرانس، روس، امریکا، برطانیہ سمیت 191 ریاستوں نے جوہری ہتھیاروں کےے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کررکھے تاکہ دنیا میں مزید ایسے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کی جاسکے۔

این پی ٹی معاہدے کے تحت ان ممالک کو اپنے جوہری وار ہیڈز کے ذخیرے کو کم کرنا ہے اور یہ ممالک رفتہ رفتہ اسکے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

این پی ٹی معاہدے نے 1970 اور 80 کی دہائی کے بعد سے ان ممالک میں ذخیرہ شدہ وار ہیڈز کی تعداد کو کم کر دیا ہے۔

پاکستان، بھارت،اور اسرائیل این پی ٹی معاہدے کا حصہ نہیں بنے تھے جبکہ شمالی کوریا 2003 میں این پی ٹی معاہدے سے الگ ہوگیا تھا۔

جوہری طاقت رکھنے والے 9 ممالک میں اسرائیل واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی اپنے جوہری پروگرام کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے پاس جوہری وار ہیڈز موجود ہیں۔

یوکرین کے پاس کوئی جوہری ہتھیار نہیں ہیں اور صدر پوتن کے الزامات کے باوجود اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔

Post a Comment

0 Comments