Ticker

6/recent/ticker-posts

لانگ مارچ… نتیجہ کیا ہو گا؟

رانا وسیم اقبال

 پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے احتجاجی لانگ مارچ کا آغاز ہوگیا ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ مارچ لاہور سے اسلام آباد تک تین سو کلو میٹر کا فاصلہ مرحلہ وار طے کرکے چار نومبر کو جمعے ہی کے دن اسلام آباد پہنچے گا۔

مارچ کا مقصد پی ڈی ایم کی حکومت کو ختم کرنا اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرانا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت کا موقف ہے کہ اس کا مقصد غیرقانونی طریقے سے قانونی حکومت کو ختم کرنا اور اسلام آباد میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اب تک لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومتوں کو تبدیل کرنے کی کوشش ناکام رہی ہے لیکن یہ بات سب کو بخوبی علم ہے کہ اس صورتحال سے پاکستان کا ہر شہری انتہائی پریشان ہے اور اسے فلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔

ملک کا سیاسی منظرنامہ اس وقت سنسنی خیزی، تشویش اور بے سمت مسافرت کا ایک ایسا منظر ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی سب کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ بیک وقت اس منظر نامے کے کردار ہیں ۔ اس منظر تک ہم کیسے پہنچے اس پر بحث اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن فی الحال ہم منظرنامے کی طرف آتے ہیں۔

ملک کے اس سیاسی منظرنامے کو ترتیب دینے اوراور بھگتنے والے سارے کردار نہ تو سکون کی نیند سو سکتے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کا متفقہ علیہ فوری حل پیش کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور پاناما کیس میں انھیں اقامہ کی بنیاد پر سزا دینے کے بعد سے لے کر اب تک ملک کا سیاسی نظام مسلسل طلاطم اور بے یقینی کا شکار ہے۔

ایک طرف وفاق کو پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کی مزاحمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف عمران خان ہر طرف حملہ آور ہونے کی کوشش میں ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت کا سامنا ہے۔ ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی کہہ رہی ہے کہ… نہ سمجھو گے تو مٹ جا وگے پیارے پاکستانیوں، لیکن ہم ہیں کہ مجال ہے جو، جوں رینگے۔

بے بس اور بے کس عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنے سیاسی نظام کی سمت کا تعین کیوں نہ کر سکے۔ ہم نے صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کا نشہ بھی لے لیا اور بلا شرکت غیرے کئی دہائیوں تک ڈکٹیٹر شپ بھی دیکھ لی، آئین اور قانون کی گردان بھی سن لیں لیکن ہمارا دائرے کا سفر ختم ہونے کو نہیں آرہا۔

عمران خان سے خواہ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بیانیے بنانے کا ماسٹرہے۔ سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان نے درجنوں ایسے بیانیہ بنائے جو اب تک زبان زد عام ہیں، ان میں 2014 کے اسمبلی کو جعلی قرار دینا، چار حلقوں کو کھولنا، 35 پنکچر لگانا، نواز شریف کو بھگوڑا کہنا، زرداری سب سے بڑی بیماری اور مولانا کو ڈیزل کا خطاب دینا، موجودہ حکومت کو امپورٹڈ اور امریکی خط کو سازش کہنا شامل ہیں۔ بیانیہ بنانے کے اس عمل میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کسی بھی طرح اس کے پاسنگ نہیں۔

نون لیگ میں مریم نواز کے سوا کوئی ایسا لیڈر نہیں جو عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔ مریم نواز بہت حد تک کرشماتی شخصیت ہیں۔ بلاول بھٹو میں توانائی اور علم تو ہے لیکن وہ ابھی تک عوام کو پوری طرح کنیکٹ نہیں کر سکے۔ نواز شریف کی شخصیت میں عمران خان کی طرح کے کرشمے کا عنصر موجود نہیں لیکن ان میں تدبر متانت، برداشت اور سیاسی راستے نکالنے کا فن سب سے زیادہ ہے۔ ان کی پاکستان میں غیر موجودگی کا نقصان ن لیگ کو تسلسل سے ہو رہا ہے۔

Post a Comment

0 Comments