میں قوم کا مجرم ہوں، معافی کا خواستگار ہوں، وضاحت دونگا۔ عمران خان نے پشاور میں کارکنوں سے جہاد پر بیعت لی۔’’حقیقی آزادی کی کال دے سکتا ہوں ،یہ سیاست کا وقت نہیں، اپنے ملک کی حقیقی آزادی کا وقت ہے‘‘ واضح رہے کہ حلف لینا اعتماد کا فقدان ہے۔
جوانی اسلامی جمعیت طلبا کی نذر، تن من دھن کے ساتھ اوڑھنا بچھونا بنایا ۔بائیں بازو کا خاتمہ میرے نزدیک اصل جہاد تھا کہ ترقی پسندوں میں اکثر فخریہ الحاد پر تھے۔ میری خوش قسمتی روحانی سیاسی قائد سید ابو اعلیٰ مودودی ؒ ٹھہرے۔ علم عمل بصیرت تقویٰ ایک زمانہ معترف ،20ویں صدی کے مجدد ہی تو تھے۔ اسلامی جمعیت طلبا نوجوانوں میں مقبول بلکہ انتہائی مقبول، کراچی تا خیبر بلا شرکت غیرے نمائندہ طلبا تنظیم ،بیشتر انتخابات آسانی سے جیتنا معمول تھا۔ اتھری جوانی ،پھر میانوالی سے نیازی قبیلے کا تڑکہ، ہر لحظہ جان ہتھیلی پر، ہر لمحہ مرنے مارنے پر تیار۔
باوجودیکہ جمعیت منکسر المزاج میری اسلامی جنونی خواہشات ٹھاٹھیں مارتیں۔ لڑ مر کر مقصد کی تکمیل مزاج سے مطابقت رکھتی تھی ۔ تین واقعات تاریخ کے ریکارڈ پر لانا ازحد ضروری ہیں۔ 1977ء میںپاکستان قومی اتحاد (PNA)کی بھٹو مخالف تحریک نظام مصطفیٰ سڑکوں پر اپنا رنگ جما چکی تھی۔پورا ملک جلسے جلوسوں کی لپیٹ میں تھا۔ لگتا تھا ، سیاسی حل نہ نکلا تو مارشل لا لگ جائیگا۔ اگرچہ مولانامودودی ؒ جماعت اسلامی اور عملی سیاست سے کنارہ کش ،اسلام اور پاکستان سے لاتعلق نہ تھے۔ ایک پریس کانفرنس بلائی ، ملکی غیر ملکی نمائندوں کا جم غفیر انکے گھر موجود، غیر ملکی نمائندے کا سوال ، ’’ یوں لگتا ہے جیسے موجودہ تناؤمارشل لا پر منتج ہوگا؟‘‘،مولانا کاجواب: ’’ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہوگا ۔بحران کا واحد حل حکومت اور اپوزیشن میں افہام و تفہیم ہے‘‘۔
دوسرا واقعہ 1979ء کے اوائل ، مولانا علاج کی غرض سے امریکہ روانہ ہونے کیلئے اسلام آباد تشریف لائے۔بڑی مشکل سے چند دوستوں کیساتھ مولانا سے ملاقات کا وقت ملا۔ پونے گھنٹہ کی نشست، میرے ایک سوال نے مولانا کو رنجیدہ کر دیا۔سوال : ’’مولانا جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ حکومت قرآن و سنت کے نظام میں دلچسپی نہیں رکھتی تو کیا ہم (تحریکی نوجوان )بزور بازو یہ کام نہ کر ڈالیں؟ ‘‘،مولانا محترم نے سخت لہجہ میں سرزنش کی،’’ مجھے افسوس ہے کہ میری محنت اکارت گئی، میرے تربیت یافتہ نوجوان غیر قانونی اور غیر آئینی سرگرمیوں کی سوچ رکھتے ہیں۔بزور بازو لاقانونیت سے طاغوتی نظام تو آسکتا ہے،اسلامی نظام ہرگز نہیں۔تحریک اسلامی کو ہر صورت مروجہ نظام کے اندرہی رہ کر کام کرنا ہے‘‘۔ مولانا کیساتھ یادگار اور شاندار میٹنگز کی کچھ مزید باتیں اسی پیرائے میں۔قرآن سے چند آیات سمجھائیں۔ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنیوالے ہیں حقیقت میں یہ شعور نہیں رکھتے‘‘ (2:11/12)۔ ’’ دھرتی پر کوئی قائدہ قانون نافذ ہو تو اس میں بگاڑ پیدا مت کرو‘‘۔ (الاعراف7:56)۔ اللّٰہ فسادیوں کو نا پسند کرتا ہے (القصص28:77)۔
بدقسمتی کہ تحریکی تربیت سے میں اپنی خواہش اور مرضی کے مطالب نکالتا رہااور ایسے کاموں میں بھی ملوث رہا جن سے مولانا مودودیؒ سختی سے روکتے ٹوکتے تھے۔آج اعتراف جرم ضروری شاید اللّٰہ معاف کر دے۔بھٹو صاحب کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ زوروں پر تھی۔ جمعیت سے باہردائیں بازو کے کچھ ساتھی ذہنی ،نظریاتی طور پر ہم آہنگ درجن ،ڈیڑھ درجن اکٹھے ہوئے ۔ بھٹو حکومت کیخلاف متشددانہ تخریبی کارروائیوں کی ٹھانی اور منصوبہ بندی کی۔ بعدازاں اس گروپ کے چند لوگ قومی سطح پر آج بھی موجود ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ یک دم ہمارے گروپ کے پاس ایک نئی گاڑی ، گرنیڈ، بندوقیں اورایسا سب کچھ جو ’’فساد‘‘ فی سبیل اللّٰہ کے لیے کافی تھا۔
اللّٰہ کامیرے پر خصوصی احسان،محض اتفاق کہ مجھے نہ تو گرنیڈ چلانے کوملااور نہ ہی بندوق ہتھے آئی البتہ کبھی کبھار کار مل جاتی کہ ہمارے لیڈر کو ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔یہ سب کچھ ہمیں کون دے رہا تھا؟ہم سے کیا چاہتا تھا؟ نہ دلچسپی اور نہ ہی جستجو ۔مقصد ایک ہی ، اگر آپریشن کامیاب رہا تو بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائیگا۔آج اپنی کم عقلی،کج فہمی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آج ضمیر کا بوجھ ہلکاکر ڈالا،اپنے حصے کا سچ بول دیا۔ 1977ء کی تحریک کو میں حق اور باطل کی جنگ سمجھ بیٹھا تھا۔مت بھولیں کہ ہم جمعیت والے راسخ العقیدہ اور با عمل مسلمان تھے۔ عمران خان کا ٹولہ تو دین سے بیزار، دین سے دور بھاگنے والا ہے۔وسیع و عریض تعداد امر بالمعروف سے تہی دامن اورکثیر تعداد منکرات سے آراستہ پیراستہ ہے۔ ایسی بے ہنگم فوج ظفر موج سے عمران خان کا باقاعدہ جہاد کیلئے بیعت لینا ،وطن عزیز کے اندر کشت و خون کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔
عمران خان کی 6ماہ پہلی تقریر سے ہی نشاندہی کا سہرا اپنا سر باندھوں گا کہ اپنے ماننے چاہنے والوں کو ٹکراؤ اور تصادم پر اکسانے کی ٹھان چکا تھا۔انارکی ،انتشارکو فروغ دینا،پروان چڑھانا ہی آخری ہدف تھا۔پشاور میں کل اٹھائے جانیوالے حلف کی تفصیل اور الفاظ پرذرا غور فرمائیں،’’پاکستان کے آئین کی پاسداری کریں گے اور اسکی حفاظت کریں گے اور یہ کہ ہم حقیقی آزادی تحریک کو ’’جہاد‘‘ سمجھ کر اس میں حصہ لیں گے، ہر قسم کی (جانی و مالی)قربانی دیں گے،اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو (آمین)‘‘۔ تحریک انصاف کی واضح اکثریت حق سے کوسوں دور،باطل کے چنگل میں ہے۔
پچھلے 22سال کلمہ کا ورد اور مذہبی ٹچ جلسوں میں کیوں نہیں کیا؟کیا اسلام رخصت پر تھا؟آج جہاد پر حلف کا مقصد صرف اور صرف فساد فی الارض اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل ہی تو ہے۔ کس آئین و قانون کی حفاظت جس کی دھجیاں قاسم سوری نے پارلیمان میں اُڑائیں؟ عمران خان کی سیاسی زندگی کا حاصل کلام لاقانونیت ہے۔
اسمبلی جس نے عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا۔اسی اسمبلی نے شہباز شریف کو اسی طریقہ اور عین آئین کے مطابق منتخب کیا،اتارنے کے لیے جو طریقہ کار سب غیر آئینی، ماورائے قانون۔ پشاور میں اٹھایا گیا حلف آئین کی صریحاً نفی ہے۔ پاکستان میں انارکی،فساد پر بیعت ہے۔ خاطر جمع رکھیں کہ عمران خان کے پاس شارٹ مارچ، لانگ مارچ، دھرنا کیلئے مطلوبہ تعداد (نمبرز) نہیں ہیں جبکہ فساد فی الارض کیلئے چند سو یا چند ہزار ہی کافی رہنے ہیں۔ یہی کچھ عمران خان چاہتا ہے۔ یہ حلف جہاد نہیں بلکہ ’’فی سبیل اللّٰہ فساد‘‘۔
0 Comments