Ticker

6/recent/ticker-posts

رنگ روڈ پروجیکٹ میں مبینہ کرپشن کیس،اہم پیش رفت ہوگئی


 لاہور کی اینٹی کرپشن کی خصوصی عدالت نے رنگ روڈ پروجیکٹ میں مبینہ کرپشن کیس پر سماعت کرتے ہوئے 2 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے ۔

بدھ کو اینٹی کرپشن عدالت کے خصوصی جج نے کیس پر سماعت کی۔ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود، وسیم تابش اور عبداللہ نے حاضری مکمل کرائی۔

اینٹی کرپشن کے 2 گواہ عدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو جرح کے لیے طلب کرلیا۔

کیس کے چالان میں اینٹی کرپشن نے ملزمان پر راولپنڈی رنگ روڑ پروجیکٹ میں 2.60 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کا الزام لگایا اور 30 گواہوں کو نامزد کررکھا ہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اسکینڈل کا پس منظر

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی سرکاری تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ کچھ درجن سرمایہ کاروں نے اس منصوبے کے ذریعے 3 کھرب 20 ارب روپے کی غیرقانونی دولت بنانے کا پروگرام بنایا تھا۔

یہ انکشاف متعلقہ اعلیٰ افسران نے راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی تحقیقات پر مبنی اپنی خفیہ اسٹڈی رپورٹ میں کیا ہے، خفیہ رپورٹ کمشنر راولپنڈی آفس نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے دفتر میں پیش کیا، پنجاب حکومت کے اس خفیہ پیپر کی کاپی سماء نیوز کے تحقیقاتی یونٹ نے حاصل کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے دوران لٹنے والے افراد نے نیب، ایف ائی اے، پنجاب اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی شکایات درج کرائیں۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں عوام کو سینکڑوں ارب روپے کا چونا لگایا گیا، مقامی زمین مالکان، پلاٹس اور فائلیں خریدنے والے اور پنجاب حکومت سب فرضی راولپنڈی رنگ روڈ کے نام پر جعلی کاروبار کا شکار ہوئے۔

سماء کو حاصل دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ غیرقانونی نقشہ سے کچھ کاروباری حضرات نے 500 ارب روپے کی خطیررقم پلاٹس خریدنے والوں کی جیب سے نکالی، سرمایہ کاروں نے 6 لاکھ فائلیں خیالی نقشہ، راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) اور پنجاب حکومت کے مونوگرام کے ساتھ عوام کو فروخت کیں۔

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ مقامی لوگوں کی زمین دفعہ 44 کی زد میں ہے، پلاٹس خریدنے والوں کی سرمایہ کاری ڈوب گئی جبکہ پنجاب حکومت اپنے اربوں روپے کی وصولی کرنے میں بھی ناکام رہا جبکہ اس فراڈ کا بیرون ملک مقیم سیکڑوں پاکستانی بھی شکار ہوئے۔

خفیہ دستاویز میں انکشاف ہوا کہ فراڈ میں ملوث سرمایہ کاروں کی طرف سے 2 لاکھ 26 ہزار ایکڑ زرعی زمین کو ہدف بنایا گیا، فائلوں کی فروخت سے پہلے مرحلے میں 50 سے زائد سوسائٹیوں اور سرماریہ کاروں نے 150 ارب روپے بٹورے، 75 ہزار فائلیں چکری سے مورت انٹرچینج تک فروخت کی گئیں، اسی طرح مورت سے ہکلا انٹرچینج تک 48 ہزار فائلیں بیچ کر ب بھی 48 ارب روپے کمائے گئے۔

رپورٹ سے مزید یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان ایک لاکھ 23 ہزار پلاٹس کی ڈیولپمنٹ اور ویلیوایڈیشن کے نام پر مزید کئی ارب کمائے گئے، 4 لاکھ بار ہزار فائل اٹک لوپ کے احاطے میں فروخت کرکے 150 ارب روپے بٹورے اور پھر ڈیولپمنٹ اور ویلیوایڈیشن کے نام پر مجموعی طور 24 ارب روپے بھی بٹور لئے۔

خفیہ پیپر میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سرمایہ کاروں اور سوسائٹیز نے اگلے چند سالوں میں 3 کھرب روپے سے زائد کی رقم کمانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ ورکنگ پیپر میں سارے معاملے کی تحقیقات کیلئے متعلقہ حکام کو رنگ روڈ کے نام فروخت ہونے والی تمام فائلوں کے ریکارڈ تک رسائی کی سفارش بھی کی گئی، تمام خرید و فروخت، بے نامی ٹرانزکشن اور ٹیکس چوری و فراڈ کی تحقیقات کی بھی سفارش کی گئی ہے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے تحقیقات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ تحقیقات میں یہ بھی تصدیق کی گئی تھی کہ زلفی بخاری اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان سمیت کچھ بااثر شخصیات کو فائدہ پہنچانے کیلئے راولپنڈی رنگ روڈ کے اصل منصوبے میں تبدیلیاں کی گئیں۔

معاملے میں نام آنے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ رپورٹ بنانے والے کمشنر راولپنڈی کو 1 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھی بھیجا تھا۔

Post a Comment

0 Comments