Ticker

6/recent/ticker-posts

لانگ مارچ: لاہور کو نقصان،ایک داستان


 عمران خان کے لانگ مارچ نے مقامی سطح پر کاروبار کو فائدہ دیا ہو یا نقصان، اس کے اثرات سے غیرملکی وفود بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 

سب سے پہلے نقصان لاہور میں ان سرمایہ کاروں کو ہوا ہے جو ایرانی وفد کی راہ دیکھ رہے تھے اور اب اس وفد کے زیادہ تر ارکان کراچی کا دورہ کر کے ہی وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔

مختصر دورے پر پاکستان آئے ایران کے صف اول کے تاجروں کا یہ وفد پچھلے ہفتے کراچی آیا تھا جس میں ایران چیمبر آف کامرس کے صدر غلام حسین شفاعی کے ساتھ ساتھ عبدالحکیم ریگی بھی تھے جو نہ صرف زاہدان چیمبر آف کامرس کے صدر ہیں بلکہ ایران پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سربراہ بھی ہیں۔مختلف صنعتی شہروں سے وابستہ چند دیگر سر کردہ شخصیات بھی اس وفد کا حصہ تھیں جس میں زنجان چیمبر آف کامرس کے صدر علی یگانیفرد، اصفہان چیمبرآف کامرس کے صدر مسعود گلشیرازی اور 3 خواتین چیف ایگزیکٹوز سمیت دیگر شخصیات بھی شامل تھیں۔

طویل عرصے کے بعد اس سطح کا وفد پاکستان آیا تھا جس کا مقصد ایران اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تجارت کو فروغ دینا اور مشترکہ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا تھا۔اصفہان چیمبرآف کامرس کے کنسلٹنٹ محمد رضا ہوں یا بندر عباس چیمبر آف کامرس کے حسن روحانی،ہر تاجر کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان میں اپنے ہم منصب بزنس مین سے ملے اور کورونا کے بعد ابھرنے کی کوشش کرتی دونوں ملکوں کی معیشتوں کو سہارا دے۔

ایف پی سی سی آئی میں اس وفد کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ پاکستان میں ایران کے سفیر علی حسینی نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم کورونا وبا سے پہلے کی صورتحال پر لایا جاچکا ہے تاہم ایسے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے جن سے تجارت کا حجم اس سطح پر لایا جائے کہ دونوں ملکوں کے عوام سستی اور معیاری اشیاء خرید سکیں۔

ایران کی اہم ترین برآمدی اشیاء میں پیٹرولیم ، پیٹرو کیمیکل مصنوعات، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، دیگر تعمیراتی سامان، فوڈ پراسسینگ خصوصاً شوگر ریفائننگ اور ویجیٹیبل آئل کی پیداوار سے جڑے یونٹس شامل ہیں، تہران کے سرفہرست درآمدی شراکت داروں میں چین 26 فیصد، عراق 12 فیصد، ترکی 8 فیصد جبکہ پاکستان صرف ایک اعشاریہ سات فیصد حصہ رکھتا ہے جبکہ برآمدی پارٹنرز میں متحدہ عرب امارات 31 فیصد، چین 24 فیصد، ترکی 10 فیصد اور حیران کن طورپر پاکستان محض صفر اعشاریہ چھ فیصد کا حقدار ہے۔

ایران کی 80 فیصد برآمدات پیٹرولیم سے جڑی ہیں جبکہ دیگر میں کیمیکلز، پیٹروکیمیکل پراڈکٹس، پھل، خشک میوہ جات اور قالین شامل ہیں جبکہ درآمدی اشیاء میں صنعتی خام مال، کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء، تکنیکی سروسز اور ملٹری سپلائز شامل ہیں۔تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2017 سے اب تک درآمد ہو یا برآمد اس کا حجم دو اعشاریہ ایک فیصد سے اوپر نہیں جاسکا۔

یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، باہمی تجارت کا حجم ایک حد سےآگے نہیں بڑھا۔پاکستان سے دالیں، پھل،گوشت،جانور،کاغذ، ٹیکسٹائل، طبی آلات،مشینری اور چند دیگر چیزیں ایران برآمد کی جاتی رہی ہیں جبکہ درآمدی اشیاء معدنی تیل، پھل وسبزیاں، ڈیری پراڈکٹس، فولاد ، پلاسٹک، قالین اور کچھ کیمیکل پراڈکٹس تک محدود رہی ہیں۔نتیجہ یہ کہ باہمی تجارتی حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔

کراچی کے تاجروں کا کہنا تھا کہ فارما انڈسٹری سمیت مختلف شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کی جانی چاہیے، پاکستان سے کاٹن، ڈینم ، نٹ ویئر، سرجیکل آلات اور اسپورٹس سے متعلق اشیاء کی برآمدات بڑھانے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔اس سلسلے میں ایران کو چاہیے کہ نکاراگوا سے تجارت کا ماڈل پاکستان کے ساتھ بھی اپنائے اور یہاں بھی اپنا تجارتی دفتر کھولے۔ انہوں نے زور دیا کہ مقامی کرنسی میں تجارت کا افغان ماڈل اپنا کر تین سے چار سال میں پاک ایران تجارتی حجم 20 ارب ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔دونوں ممالک کے تاجروں نے دو اہم مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے اور ون آن ون میٹنگز میں کئی اہم ڈیل ممکن بنائیں۔

دونوں ممالک کے تاجر اس بات پر متفق تھے کہ بینکنگ چینل کھولنے ہی سے تجارتی رشتہ مضبوط بوگا اور اس کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے یقین دہانی کرائی کہ تجارتی سہولتوں کے لیے ایرانی پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون سازی کرے گی اور توقع ظاہر کی کہ پاکستان کا اسٹیٹ بینک بینکنگ چینل کھولنے میں کردار ادا کرے گا۔

ایرانی تاجروں کا 23 رکنی وفد کو جمعہ کو لاہور جانا تھا مگر عمران خان کا لانگ مارچ حائل ہوگیا اور اس طرح لاہور کے تاجر نہ تو ایسی کسی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرسکے نہ ہی جوائنٹ وینچور کے مواقع تلاش کرنے کا موقع پاسکے۔

لانگ مارچ سے پنجاب کے دل کو پہنچنے والے نقصان کی یہ صرف ایک داستان ہے، آزادی مارچ لاہور سے اب آگے بڑھا ہے تو ایسی کتنی ہی داستانیں ہیں جو پاکستان کا دل اسلام آباد سنائے گا۔

Post a Comment

0 Comments