Ticker

6/recent/ticker-posts

ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہوتے ہیں؟


 

پ نے سنا ہو گا کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے یا دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ جو اس وقت ہمارے ملک کے حالات ہیں ہم ایک دیوالیہ ملک کے رہنے والے ہیں۔‘

پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق یہ جملے سوشل میڈیا یا کسی ٹاک شو میں بحث کے دوران جذ بات میں منہ سے نکلی بات نہیں بلکہ ان جملوں کو ادا کیا ہے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے۔

وزیردفاع خواجہ آصف نے پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق اپنی تقریر میں یہ جملے ایک بار ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کہا بلکہ اپنی تقریر کے دوران پاکستان کی معاشی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے اس کا زمہ دار ’اشرافیہ‘ کو قرار بھی دیا۔

’ملک میں حکومت کی زمین پر 1400/1500 کینال پر گولف کلب بنے ہوئے ہیں جس پر اس ملک کی اشرافیہ اپنی شامیں بسر کرتے ہیں۔ کھانا کھاتے، گپیں مارتے اور پاکستان کی سیاست پر گفتگو کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے دو کلب ہی فروخت کر دیئے جائیں تو ملک کا چوتھائی قرضہ اتر سکتا ہے۔ لاہور کا ایک کلب 1500 کنال پر ہے۔ اس کا پانچ ہزار روپے مہینہ کرایہ ہے۔‘

پاکستان میں اس وقت مہنگائی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے ہر نئے دن کا آغازاکثر اسی سوال سے ہوتا ہے کہ آج آٹے دال کا بھاؤ کہاں تک جا پہنچا؟

ایسے میں ملک کے وزیر دفاع کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا بیان آنے پر لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آخر ملک کا دیوالیہ ہونا کس کو کہتے ہیں اور اس اصطلاح کو درحقیقت کب استعمال کیا جاتا ہے۔

ہم نے کچھ ماہرین سے بات کر کے معاشی صورت حال کی اسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے اور سب سے پہلے ان سے جانا کہ کیا واقعی ملک دیوالیہ ہو چکا ہے؟

کیا واقعی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے؟

پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹرعابد قیوم سلہری سے ہم نے سب سے پہلے یہ جانا کہ کسی بھی ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کب ہوتا ہے؟

ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے عام آدمی کی سمجھ کے لیے آسان الفاظ میں بتایا کہ افراد کی طرح ملک بھی اسی طرح دیوالیہ ہوتے ہیں جب وہ اپنے قرضے ادا کرنے سے قاصر ہو جائیں اور اس وقت وہ اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دیتے ہیں۔

’دیوالیہ ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ جو ادائیگیاں آپ نے کرنی ہیں وہ زیادہ ہوں جبکہ آپ کی آمدنی کم ہو اور آپ کو کوئی ایسا ذریعہ نظر نہ آ رہا ہو جہاں سے آپ اپنی آمدنی وقتی یا مستقل طور پر بہتر بنا کے پہلے کے قرضوں کی ادئیگی کر پائیں۔ یہ کسی بھی فرد سے لے کر ملک کے دیوالیہ ہونے کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔‘

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے وزیر دفاع کے بیان پر جب بی بی سی نے سوال کیا تو ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے اس کو بین الاقوامی مروجہ قوانین کی زبان میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ابھی دیوالیہ نہیں ہوا۔‘

’ڈیفالٹ ہونے کے لیے ڈی فیکٹو اور ڈی جیورو کی اصلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ڈی فیکٹو سے معنی ہیں کہ عملاً کیا ہو رہا ہے جبکہ ڈی جیورو یعنی بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے کیا صورت حال ہے۔‘

بین الاقوامی مروجہ طریقہ کار کے مطابق دیکھا جائے تو پاکستان نے اپنی آج تک کی تاریخ میں ڈیفالٹ نہیں کیا۔ ’پاکستان اب تک اپنے قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرتا ہے۔ ان کو رول آؤٹ کرنے کا مطلب کہ پچھلے قرضوں کی ادائیگیاں نئے قرضے لے کر ادا کر لینا یا شیڈول میں کوئی تبدیلی کر لینا۔ لیکن پاکستان نے ابھی تک ڈیفالٹ نہیں کیا اور ابھی بھی حکومت پر امید ہے کہ وہ اپنے قرضہ جات کی ادائیگیاں کر لیں گے تو یہ تو ہے ہماری قانونی پوزیشن جس میں بین الاقوامی قوانین کے حساب سے پاکستان ابھی تک نا دہندہ نہیں ہوا۔‘

ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے مزید بتایا کہ ’اب ہمارے پاس دو ہفتے درآمد (امپورٹ) کے ڈالر ہیں اور پاکستان کو چار سالوں میں ہر سال 34 ارب ڈالرز ایکسٹرنل سپورٹ کی صورت میں درکار ہوں گے تاکہ وہ اپنی آمدنی اور اخراجات کے توازن کو قائم رکھنے کے ساتھ ، درآمدات کے بل اور اپنے قرضے کی قسط کی ادائیگی کر سکے۔‘

’تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان دیوالیہ تو نہیں ہوا لیکن اس کے سر پر ایک تلوار ضرور لٹک رہی ہے کیونکہ اس وقت ہم کافی سارے ’اگر اورمگر‘ کے ساتھ اپنی ادائیگیاں کر پاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت بھی اگر آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مزاکرات ناکام ہو جاتے ہیں یا دوست ممالک سے امداد نہیں ملتی یا ان کے قرضوں کو آگے نہیں بڑھاتے یا سٹیٹ بینک میں ڈیپازٹ نہیں رکھواتے تو پاکستان کے لیے اگلی ادائیگیاں مشکل ہوں گی اور خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔‘

Post a Comment

0 Comments