Ticker

6/recent/ticker-posts

بالکل ہم نے کچھ صحافیوں کو بنایا ان کو ہم خبریں بھی دیتے تھے،ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی


 ایسے ڈینگیں مارتا ہے۔جب میں گورڈن کالج گیا تو اس سے چھ سال پہلے شیخ رشید کالج سے جا چکا تھا۔میں تو اس کو زندگی میں صرف دو دفعہ ملا ہوں۔ایک دفعہ وہ فروری 2022میں میرے پاس آیا تھا اور کہتا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی کچھ کریں۔


شیخ رشید جیسے جھوٹے آدمی سے بھلا میں کیوں ملوں گا اس کا کوئی انٹلیکٹ لیول نہیں ہے۔بالکل فارغ ہے اورمسلسل جھوٹ بولتا ہے اورایسے ہی نجومیوں کی طرح تاریخیں دیتا ہے۔ جنرل باجوہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔


ملاقات کے دوران جب میں جنرل باجوہ سے سوالات پہ سوالات کر رہا تھا تو انہوں نےہنستے ہوئے کہا آپ میری طرح بہت بے چین روح ہیں آپ صبر سے سنیں گے تو آپ کو سب سمجھ آجائے گا اور واقعی ایسا ہی ہواتو میں نے کہا آپ بہت اچھے سٹوری ٹیلر ہیں۔


جنرل باجوہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا میں جب لمز یونیورسٹی گیا ۔لمز یونیورسٹی اینٹی اسٹبلشمنٹ سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے وہاں چھ گھنٹے سے زائد گفتگو کی،طلباء کے سوالات کے جواب دئیے۔

اس پر یونیورسٹی کے ریکٹر نے کہا سر آپ کو استاد ہونا چاہیے ، آپ بہت رواں گفتگو کرتے ہیں


اس پر جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ ہاں میں نے صدیق جان کو کہا تھا مجھے کسی نے اس کا وی لاگ بھیجا تھاتو شیو کرتے ہوئے سنااور یہی فارغ وقت ملا۔ویسے بھی جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ وہی بات سننا چاہتے ہیں جو آپ کے حق میں ہواور آپ کے مخالف کے خلاف ہو۔بعض اوقات آپ کسی کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہوتے ہیں۔کچھ یوٹیوبرز میرے پاس آئے ہوئے تھے تو اس وقت صدیق جان کویہ کہا تھا۔


میں نے کہا اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی کیسے عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے اور ایسے بھی جن کو بنایا ہی فوج نے تھا؟


کہتے ،بالکل ہم نے کچھ صحافیوں کو بنایا ان کو ہم خبریں بھی دیتے تھے،ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو ہمیں ایسے صحافیوں کی ضرورت تھی جو ان کے خلاف بات کریں یا ان کے مخالف ہوں۔اسی طرح اے آر وائی کی ہمیں اس لیے ضرورت تھی کہ وہ ہماری بات کرتا تھا۔چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کو تو میں فیلڈ میں بھی ساتھ لے گیا۔جب فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو ہمیں ایسے صحافیوں کو آہستہ آہستہ بتانا چاہیے تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا بیانیہ بدلنا چاہیے تھا اور ان کو آہستہ آہستہ تبدیل کرتے لیکن ہم نے یہ نہیں کیااور ہم نے ایک دم اپنی سائیڈ بدل لی۔اس سے وہ وہیں پر رہ گئے۔دوسرا عمران خان جھوٹ بولنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔وہ بہت چالاک آدمی ہیں اور جھوٹ جھوٹ بار بار بولتے ہیں اور لوگ اس پر یقین کرلیتے ہیں۔

اوریا مقبول جان کا ذکر ہوا تو جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ وہ بھی بہت جھوٹا آدمی ہے۔پہلے اس کو میرے بارے میں خواب میں بشارت ہوتی تھی اور اب میری مخالفت کرتا ہے۔ارشاد بھٹی سے شناسائی کے ذکر پر جنرل باجوہ کہتے اس کو میں نے جیو میں نہیں رکھوایا تھا۔


ہوا یوں کہ ایک دن میرے سسر جنرل اعجاز امجد کہتے تمہیں اپنے دوست کے ہاں ڈنر پر لے کر جانا ہے۔ جب ہم اسلام آباد ان کے دوست کے گھر پہنچے تویہ صدرالدین ہاشوانی کا گھر تھا۔میں اس وقت میجر جنرل تھا۔وہاں صدرالدین ہاشوانی نے ارشاد بھٹی کا تعارف کروایا کہ وہ ہمارا میڈیا کا سیٹ اپ دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد ارشاد بھٹی میرے پاس آنا شروع ہوگئے۔جب میں کورکمانڈر بنا تب بھی میرے پاس باقاعدگی سے آتے رہے۔


میں نے کہا میر شکیل الرحمان کو جیل کس نے بھجوایا تھا؟

کہتے ،میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا۔میں نے میر شکیل الرحمان کو جیل سے نکلوایا۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میر شکیل الرحمان کینسر کا مریض ہے وہ جیل میں ہی مر جائے گاتو پھر اس نے بات مانی۔


آپشن نہیں ہے۔پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں۔


میں نے کہا آپ نے جنرل عرفان ملک کو آئی ایس آئی سے اس لیے ہٹایا کہ انہوں نے مریم نواز کو سمیش کرنے دھمکی دی تھی؟


کہتے ،میں نے نہیں ان کو جنرل فیض نے ہٹایا تھا۔جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی دونوں کا کام خود کرنا چاہتے تھے۔


میں نے پوچھا مریم نواز والا واقعہ کیسے ہواتھاکس نے دروازے توڑنے کا حکم دیا تھا؟


انہوں نے کہا یہ حکم میں نے نہیں دیا تھا، بریگیڈئیر حبیب اس وقت سیکٹر کمانڈر تھے۔کیپٹن صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کی تو عوام ،فوجی جوانوں اور میڈیا کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائےتو جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا مگر نچلے لیول پر کچھ زیادہ ہوگیا۔پولیس نے جب ریڈ کیا تو کیپٹن صفدر اور مریم نواز الگ الگ کمروں میں تھے وہ دونوں ایک کمرے میں نہیں تھے۔

میں نے کہا آپ کو اس پر نواز شریف نے فون کیایا کوئی شکایت کی ؟

کہتے نہیں، نواز شریف نے فون کیا نہ کوئی شکایت کی۔ہم نے ذمہ دار افسر کو ہٹا دیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments