Ticker

6/recent/ticker-posts

افغان استحکام کیخلاف مجرمانہ سازشیں


 ریاست ہائے متحدہ امریکا کی جیل میں طویل سزا کاٹنے والے افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع میوند کے کشکی نخود سے تعلق رکھنے والے حاجی بشر نورزئی ستمبر 2002ء کو 17 سال 5 ماہ بعد رہا کردیے گئے۔ رہائی امریکا کے انصاف کے نظام کی بجائے اپنے شہری انجینئر ”مارک فری ریچر“ کی رہائی کے بدلے ممکن ہوئی ہے، جو 31 جنوری 2020ء کو افغانستان سے اغواء کرلئے گئے تھے۔

حاجی بشر نورزئی کا تعلق قندھار کے معروف خاندان سے ہے، انہیں 2005ء میں گرفتار کیا گیا اور بھاری مقدار میں ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام کے تحت 2008ء میں نیویارک کی ایک عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔

کابل پہنچنے پر حاجی بشر نے افغان، امریکا تعلقات کے بارے میں اُمید افزاء گفتگو کی۔ لگتا ہے وہ اس ضمن میں ذاتی طور پر دلچسپی لے رہے ہیں، مگر امریکا سے اچھائی کی اُمید نہیں ہے، جو دوحا معاہدے پر دستخط کے باوجود عہد پر قائم رہنے میں سچا ثابت نہ ہوا ہے، افغانستان سے لاتعلق ہی اس بنا ہوا کہ ملک 90 کی دہائی کی مانند خانہ جنگی کا شکار ہو، اس نے شمال کے جنگی کمانڈروں اور جنگجوﺅں سے پوری اُمید باندھ رکھی تھی کہ وہ افغان طالبان کے آگے کھڑے ہوکر منظم جنگ کا آغاز کردیں گے، طالبان اس نیت کا ادراک رکھتے تھے، جس کی پیش بندی کرچکے تھے، پشتون منطقوں میں ان کیلئے چنداں مشکلات نہ تھیں۔

چناں چہ کٹھ پتلی حکومت کی فوج اور دوسری فورسز طالبان کے آگے سرینڈر ہوتی گئیں یا پہلے ہی عافیت ڈھونڈلی تھی، طالبان نے کابل کی بجائے تصرف کا آغاز ہی شمال کے علاقوں سے کیا، رفتہ رفتہ کابل کی طرف بڑھتے گئے، کابل کے گرد اکٹھے رہے تاکہ کسی بھی ممکنہ تخریبی منصوبے کو پنپنے نہ دیا جائے۔

طالبان کی پیش بندی کابل کو خون خرابے اور بربادی سے محفوظ رکھنے کیلئے تھی، شمال کے سیاسی بڑے جنگجو کمانڈر اور کارندے بھاگ گئے، کوئی دوسرا چارہ نہ پا کر اشرف غنی بھی بھاگ نکلے، وہ نہ بھی جاتے تو ان کو عزت و اکرام کے ساتھ کابل میں رہنے دیا جاتا، نئی حکومت کی عملداری پورے افغانستان پر قائم ہوچکی ہے، احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیاء، امر اللہ صالح اور رشید دوستم، دوسرے ممالک میں بیٹھ کر عدم استحکام اور جنگ کی فضاء پیدا کرنے کی مجرمانہ کوششوں میں ہیں۔

نیشنل ریزسسٹنس فرنٹ (این آر ایف) سے وابستہ کمانڈر ایران کے اندر بھی موجود ہیں، جن کا مقصد افغان حکومت کیخلاف فارسی بولنے والے جنگجوﺅں کو منظم کرنا ہے، ایران اور افغانستان کے مابین تعلقات کافی حد تک استوار ہیں، مگر یہ گروہ، کشیدگی اور دونوں ممالک کے درمیان ”پراکسی“ جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایران کے اندر حالیہ خواتین کا سڑکوں پر نکل آنا، اور زاہدان کے حالات بقائے باہمی کی ضرورت واضح کرتے ہیں۔

افغان حکومت آئی ایس آئی ایس کے خلاف ہمہ وقت متحرک ہے، 30 ستمبر کو کابل کے علاقے ”دشت برچی“ میں امتحانی مرکز میں خودکش دھماکے میں 53 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور طالبات سمیت 46 افراد شامل ہیں، طالبان حکومت نے اس خون آشامی میں ملوث کارندوں سے کوئی رعایت نہ برتنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد کابل کی ایک مسجد میں پھر دھماکا ہوا۔

مسلح گروہوں کیخلاف موجودہ افغان حکومت کو دنیا کی معاونت بہر حال درکار ہے، خصوصاً امریکا کو اس جانب توجہ دینی ہوگی، روس۔یوکرائن کے درمیان جنگ میں واشنگٹن ہر لحاظ سے یوکرین کی مدد کررہا ہے، متعدد بار عسکری امداد دی، اگست 2022ء کے آخری عشرہ میں 3 ارب امریکی ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا، پچھلے دنوں پھر امداد کا اعلان کیا تاکہ یوکرین طویل مدت تک اپنا دفاع جاری رکھ سکے۔ صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ امداد کا مقصد یوکرین کے عوام کی اپنی آزادی اور خود مختاری کا دفاع ہے جبکہ خود امریکا نے 20 سال تک عسکری طاقت کے بل بوتے پر افغانوں کی آزادی اور خود مختاری ہتھیا رکھی تھی۔

گویا اگر افغان حکومت تسلیم کی جاتی ہے تو ان کے منجمد اثاثے تفویض کئے جاتے ہیں اور ان کی معاشی، اقتصادی، فوجی امداد کی جائے تو افغانستان میں داعش وغیرہ گروہ کو کہیں بھی پنپنے کی جگہ نہ مل سکے گی۔ بعض لوگوں اور سیاسی حلقوں کی بے شرمی دیدنی ہے، جنہوں نے داعش گروہ کی افغانستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ماضی میں امریکی قبضہ کے دوران اس گروہ کے عملیات، تفویض کردہ پروپیگنڈہ کے تحت طالبان کے سر تھونپنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالانکہ طالبان فوجی اہداف رکھتے تھے۔

تب اور آج بھی داعش افغانستان میں ناصرف اقلیتوں، مساجد، امام بارگاہوں، سیاسی و دینی اجتماعات حتیٰ کہ برابر طالبان رہنماﺅں پر حملے کررہی ہے، امریکی قبضہ کے دوران بھی طالبان داعش سے متصادم رہے ہیں۔ یکم اکتوبر کو افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں دہرایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان اور کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، یہاں تک قرار دیا ہے کہ وہ پاکستان یا دیگر ملکوں کیخلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے اس پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلائیں گے۔

بلا شبہ سرحدی علاقوں سے پاکستانی فورسز پر وقتاً فوقتاً حملے ہورہے ہیں، افغان حکومت البتہ اس بات میں سچی ہے کہ ان کی جانب سے افغانستان میں موجود کسی کو بھی تخریبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ بقول ذبیح اللہ مجاہد ان لوگوں نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ کسی دوسرے ملک کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے۔ کابل حکومت نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کر رکھا ہے، متعدد نشستیں ہوچکی ہیں، چنانچہ معاشی اور مالی تنگ دستی کی وجہ سے افغان حکومت کو گوں نا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس تناظر میں کابل کو سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں، پاک افغان سرحدی لائن پر ہمہ وقت گشت اور نگاہ افغان حکومت کیلئے کار گراں ہے، جس کا مسلح گروہ فائدہ اٹھا کر افغانستان کے اندر بھی اور پاکستان کی فورسز پر حملوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ افغان حکومت البتہ یہ بھی قرار دے چکی ہے کہ اسلام آباد بھی یہ یقینی بنائے کہ ان کی سرزمین افغانستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہ ہو۔

یہاں ایک حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان سرحد کے قر یب افغان علاقوں کنڑ، خوست وغیرہ میں مقیم قبائلی علاقوں سے جانے والے خاندان افغانستان کے شمال کے علاقوں میں ٹھہرائے جائیں، اس ضمن میں پاکستان کی حکومت افغان حکومت کی مالی معاونت کرے، یوں جنگجوﺅں کیلئے پاکستان کی سرحد تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ تا آنکہ پاکستان اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات منطقی نتیجہ تک پہنچ پائیں۔

پاکستان کے اندر بعض پشتون سیاسی افراد کا مسلسل تکرار کھلم کھلا افغانستان پر غیر ملکی اور شمال کے کمانڈروں کو غلبے کی دعوت پر مبنی ہے، یہ شمال کے گروہوں سے رابطہ اور مراسم رکھتے ہیں، ان کے افغانستان بارے متواتر بیانات شمال کی سیاسی اور جنگی گروہوں کی جانب سے کابل پر تسلط کی خواہش کا اظہار ہے، جو دراصل افغانستان میں صریح مداخلت ہے اور خیانت کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے۔ طرفہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر حکومتی مراعات و تعیشات سے آراستہ بھی ہیں اور ڈھونگ افغانستان کی آزادی، ترقی اور روشن خیالی کا رچا رکھا ہے، گویا ان کے نزدیک 20 سالہ امریکی قبضہ افغان آزادی اور استقلال کا زمانہ تھا۔

محمود خان اچکزئی کا اس ذیل میں حالیہ نکتہ نظر راہ نما ہے کہ امریکا اور تمام دنیا افغانستان کے استقلال کی حفاظت اور اس کی تعمیر نو، ترقی و بہبود میں کردار ادا کرے۔ مزید یہ کہا ہے کہ پاکستان ایران اور وسطی ایشیائی ممالک اگر ترقی کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو انہیں افغانستان کے استقلال، ارضی تمامیت کے احترام کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کے تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔

Post a Comment

0 Comments